اکرم حسین کیلاش بمبوریت میں واقع عجائب گھر کا انچارج ہے اور ماحولیات کو صاف رکھنے پر بھی رضاکارانہ طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سال 2019 میں جب وادی کیلاش میں سالانہ مذہبی تہوار چیلم جوش منایا جارہا تھا اس کو دیکھنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں سیاح آئے تھے۔ ان سیاحوں نے وادی میں کئی من کوڑا کرٹ بھی چھوڑا جس پر اکرم حسین نے اس وقت وادی کیلاش میں کھلی کچہری کے دوران ڈپٹی کمشنر سے شکایت بھی کی تھی کہ وادی کیلاش میں کنٹرولڈ ٹورزم کو فروغ دیا جائے سیاح بے شک آئے مگر ایک حاص حد تک اور ان کو پابند بھی کی جائے کہ وہ ادھر ادھر گندگی نہ پھینکے بلکہ فالتو چیزوں اور کوڑا کرکٹ کو ڈسبین میں ڈالا کرے۔ اس سال کرونا وایریس کی وجہ سے ملک بھر میں لاک ڈون لگ گیا اور کیلاش قبیلے کے سالانہ مذہبی تہوار چیلم جوش بھی اس طرح نہیں منایا گیا جس میں سیاح شرکت کرتے تھے۔ لاک ڈون کی وجہ سے سیاحوں کی آمد پر چترال اور وادی کیلاش میں پابندی لگی تھی جس کے باعث وادی کا ماحول صاف ستھرا رہا اور اس مرتبہ اکرم حسین جیسے کئی ماحول دوست رضاکاروں کو کوئی شکایت نہیں تھی جو ماحولیات کو حراب ہونے پر فکر مند ہوتے ہیں۔
کرونا وائرس جہاں لوگوں کیلئے زحمت کا باعث بنا وہاں یہ قدرتی ماحول کو صاف رکھنے میں رحمت کا باعث بن گیا۔ حصوصی طور پر چترال کے دونوں اضلاع میں سال میں محتلف تہوار منائے جاتے ہیں۔
ان تہواروں میں ہزاروں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح شرکت کرتے ہیں ان میلوں کو دیکھنے کیلئے آنے والے سیاح کئی ٹن کوڑا کرکٹ بھی چھوڑتے ہیں جو وہاں کی قدرتی ماحول کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا رہتا ہے۔
رحمت جعفر دوست ایک ماحول دوست رضا کار ہے جو محتلف مقامات پر رضاکارانہ طور پر وہاں سے کوڑا کرکٹ بچوں سے اٹھواتا ہے اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ اس نے اپنا ایک غیر سرکاری ادارہ بھی بنایا ہوا ہے جو لوگوں میں آگاہی پیدا کرتا ہے اور ماحول کو صاف رکھنے میں محتلف لوگوں کو بھی شامل کرتا ہے۔ رحمت جعفر دوست نے پچھلے سال اس وقت احتجاج کیا تھا جب شندور میں سالانہ پولو ٹورنمنٹ کے دوران رات کے وات آتش بازی ہوئی تھی اور اس آتش بازی کی وجہ سے وہا ں ارد گرد کا ماحول کافی آلودہ ہوا تھا۔ رحمت جعفر دوست کا کہنا ہے کہ اس کیلئے میں نے دستحطی مہم چلایا تھا اور ٹیلیفو ن اکسچینج کے سامنے ایک بڑا بنیر لگایا تھا جس پر تمام ماحول دوست لوگ دستحط کرکے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے۔ لاک ڈون کی وجہ سے سال 2020 میں شندور میلہ نہیں منایا گیا جو ہر سال سات جولائی سے نو جولائی تک منایا جاتا ہے اس میلے میں چالیس سے پچاس ہزار سیاح ہر سال وادی شندور کا رح کرتے ہیں۔ اس تین روزہ میلہ سے پہلے اور بعد میں بھی بعض سیاح وہاں حیموں میں رہ کر قیام کرتے ہیں۔ یہ سیاح اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جاتے ہیں اور ان کو استعمال کرنے بعد پلاسٹک بیگ، کین، دیگر فالتو چیزیں وہاں پھینکتے ہیں جو وہاں کے قدرتی ماحول کو آلودہ ہونے کا باعث بنتا ہے۔ حاص کر شندور میں جو کئی ایکڑ زمین پرمحیط قدرتی جھیل ہے اس میں بھی اکثر لوگ گندگی پھینک کر اس پانی کو بھی آلودہ کرتے ہیں۔ تحصیل میونسپل آفیسر مصبا ح الدین اور رحمت ولی کے مطابق شندور میلے میں ان پانچ دنوں میں کم از کم سات ٹن کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے مگر اس کو ٹکانے لگانے کیلئے کوئی حاص بندوبست نہیں ہوتا۔ تاہم ماحول دوست رضاکار اور کبھی کبھار سکول کے بچے اسے ٹکانے لگاتے ہیں۔
ٹی ایم او چترال کے مطابق چترال میں روزانہ پانچ ٹن کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے جسے میونسپل کمیٹی کے چار گاڑیوں میں دو، دو مرتبہ اٹھایا جاتا ہے اورا ن کو ٹکانے لگایا جاتا ہے۔ وادی کیلاش میں جب یہ سالانہ تہوار منایا جاتا ہے تو ان تین دنوں میں کم از کم دو ٹن کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے مگر اسے اٹھانے کیلئے کوئی بھی سرکاری ادارہ تیار نہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے سابق چئیرمین پروفسیر ڈاکٹر عبد الرشید سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں سیاحوں کا تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے نہ کو ایجوکیٹ کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ قدرتی ماحول کو آلودہ کرنے اور اپنے آس پاس کو گندہ کرنے میں حضرت انسان کا بڑا ہاتھ ہے مگر جب بھی کسی وجہ سے سیاحو ں کی آمد پر پابندی لگ جاتی ہے تو اس ماحول سے وہ مضر اثرات منفی کیا جاتا ہے یعنی وہاں کا ماحول صاف ستھرا رہتا ہے۔ ڈاکٹر رشید نے تجویز پیش کی کہ یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ کسی سیاحتی مقا م پر جانے والے سیاحوں کو پہلے باقاعدہ تربیت دینا چاہئے اگر یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم ان کو پمفلٹ، بروشر کے ذریعے آگاہی دینا چاہئے کہ اس سیاحتی مقام کو گندہ نہ کرے اور وہاں کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
پروفیسر ڈاکٹر رشید نے مزید بتایا کہ یہ معلوماتی پیغامات موبائل فون کے ذریعے بھی ہوسکتے ہیں اور وہاں بینرز بھی لگاکر اس سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر رشید نے بتایا کہ ان سیاحوں کی وجہ سے بعض پھلوں کا بیج وہاں پھینک کر اس سے دوبارہ درخت اگتے ہیں مگر یہ اکثر پلاسٹک کے تھیلے، شیشے کی بوتلیں اور ایسی چیزیں بھی پھینکتی ہیں جو گل سڑنے کے قابل نہیں ہوتے اور یہی چیزیں قدرتی ماحول کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔ ان کو اگر تعلیم دی جائے کہ ایسی چیزیں استعمال کیا کرے جسے استعمال کے بعد پھینک کر قدرتی کھاد بن جاتے توہ ان درختوں کیلئے مفید ہوتا ہے۔
چترال یونیورسٹی کے پراجیکٹ ڈایریکٹر پروفیسرڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری نے کہا کہ جتنا انسا ن کیلئے زندگی اور آکسیجن ضروری ہے اتنا ہی اس کی بقاء کیلئے صاف ماحول بھی ضروری ہے ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ ہم اکثر گندگی کو قدرتی چشموں، پانی کے ندی اور باغات میں پھینکتے ہیں جس سے وہ پانی بھی آلودہ ہوکر نقصان کا باعث بنتا ہے اور وہاں کے قدرتی ماحول کو بھی بہت نقصا ن پہنچتا ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں چلڈرن سپیشلسٹ ڈاکٹر گلزار احمد نے بتایا کہ ستر فی صد بچوں کو پیٹ کی بیماری وغیرہ گندہ پانی پینے سے لاحق ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاح اور مقامی لوگ کوڑ ا کرکٹ یا کھانے پینے کی چیزیں استعمال کرنے کے بعد ان پلاسٹک، ڈبوں اور پیکٹ کو پانی کی نالوں میں پھینکتے ہیں جہاں سے لوگ پانی پینے اور کھانا پکانے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ڈاکٹر گلزار کے مطابق اس مرتبہ جب چترال میں سیاحوں کی آمد پر پابندی لگی تھی تو یہاں بیماریاں بھی کم پھیلی۔
اس سلسلے میں چترال کے ڈپٹی کمشنر سے بھی رابطہ کیا گیا تو ان کا بھی کہنا تھا کہ وادی کیلاش میں مقیم ہزاروں سالوں سے کیلاش قبیلے کے لوگ ہر سال اپنا مذہبی تہوار مناتے ہیں جن کو دیکھنے کیلئے بہت زیادہ سیاح آتے ہیں مگر اکثر کیلاش لوگ یہ شکایت بھی کرتے رہتے ہیں کہ ان میں بعض سیاح نہ صرف وہاں کے قدرتی ماحول کو آلودہ کرتا ہے بلکہ کیلاش لوگوں کے رسم و رواج اور ان کے اقدار کا بھی حیال نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ کیلاش سے یہ شکایت آتا رہتا ہے کہ وہاں غیر ضروری ہوٹلوں حاص کر دو منزلہ عمارت پر پابندی لگایا جائے اور غیر مقامی لوگوں کا بھی مزید ہوٹل تعمیر کرنے کی حوصلہ شکنی کیاجائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سیاح بہت زیادہ کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے مگر امسال لاک ڈون کی وجہ سے دفعہ144 لگ گیا اور سیاحوں کو وادی میں نہیں چھوڑا گیا جس سے وہاں کا ماحول صاف رہا۔انوایرنمنٹل پروٹیکشین ایجنسی اور صوبائی محکمہ ماحولیات سے بھی اس سلسلے میں ان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم ان کے ایک اہلکار نے فون پر بتایا کہ ان کا ادارہ قدرتی ماحول کو ہر قسم کے آلودگی سے صاف رکھنا چاہتے ہیں اور جہاں لوگ قدرتی ماحول کو نقصان پہنچاتا ہے یا ان کو اس طرح آلودہ کرتے ہیں جو زہریلا بن کر عوام کی صحت کیلئے مضر بنے تو وہاں ہم قانونی کاروائی بھی کرتے ہیں۔ آغا خا ن رورل سپورٹ پروگرام کے سابق ریجن پروگرام منیجر انجنئیر سردار ایوب نے بتایا کہ ان کا ادارہ بھی ماحولیات کو صاف رکھنے میں کردار ادا کرتا ہے اور اس مقصد کیلئے وقتاً فوقتاً کسی متحرک تنظیموں کی خدمات بھی لیتے ہیں تاکہ وہ عوام میں آگاہی پیدا کرے اور اپنے ارد گرد ماحول کو صاف رکھے۔
وادی کیلاش میں اگر چہ اکثر لوگ ان کے تہوارو ں میں سیاحو ں کی آمد پر پابندی کی وجہ سے مالی مشکلات اور نقصان کے
شکار ہوئے مگر اکثر ماحول دوست لوگ اس بات پر خوش ہیں کہ لاک ڈو ن کی وجہ سے سیاحو ں کو یہاں نہیں چھوڑا گیا اور وہاں کا ماحول ماضی کی نسبت صاف ستھرا رہا اور اس کی وجہ سے اوزون کے لئیر بھی صا رہے جو ماضی میں نقصان سے دوچار ہوئے تھے۔ پولو ایسوسی ایشن کے صدر اور چترال پولو ٹیم کے کپتا ن شہزادہ سکندر الملک نے بھی بتایا کہ شندور کا میلہ نہ ہونا اگر چہ نہ صرف چترال کیلئے نقصان کا باعث بنا بلکہ دیگر سیاحوں کی بھی جذبات کو ٹیس پہنچا مگر دوسری طرف وہاں آنے والے سیاح جو بیسیوں من گند چھوڑتے ہیں اس سے وہاں کے ما حول کو کافی نقصان پہنچتا ہے حاص کر اکثر سیاح پلاسٹک کے تھیلے، جوس کے ڈبے، بسکٹ کے ڈبے چھوڑتے ہیں جس سے ایک طرف وہاں پانی اور ماحول آلودہ ہوجاتا ہے دوسری طرف وہاں چراہ گاہ میں چرنے والے یاک Yorkیعنی جنگلی بیل اسے کھاکر اکثر بیمار پڑتے ہیں یا مر جاتے ہیں۔ بہر کیف کرونا وائرس اگر انسانی معیشت کیلئے نقصان کا باعث بنا تو وہاں انسان اور حیوان کی بقاء کیلئے رحمت کا باعث بھی بنا کیونکہ لاک ڈون کی وجہ سے سیاحوں کی آمد پر پابندی لگ گئی اور سیاحوں کی نہ آنے سے وہاں کا قدرتی ماحول صاف ستھرا اور غیر آلودہ رہا جو ہمارے آئندہ نسل کیلئے بھی یہ صاف ماحول بہت ضروری ہے۔

Load More Related Articles
Load More By Gul Hamad Farooqui
Load More In Blogs

Leave a Reply

Check Also

Kolai pallas

dfadfd …