شانگلہ کے ڈاکٹر انسانیت کیلئے ایک اعلیٰ مثال

0 second read
0

خیبر پختونخوا کے شمالی ضلع شانگلہ کے تحصیل بشام کے ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے ڈاکٹر ثناء اللہ نے کرونا وائرس سے جاں بحق ہونیوالے میت کو غسل سے لیکر قبر میں اُتارنے تک سارا کام خود سرانجام دیکر ایک نیا مثال قائم کرلیا ہے۔ شانگلہ میں کرونا وائرس سے متاثرہ بشام کے علاقہ میرہ کے 70سالہ رہائشی محمد زر جوکہ کئی دنوں سے تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال بشام میں آئیسو لیشن وارڈ میں زیر علاج تھے کہ منگل کے روز علی الصبح چل بسے۔ کرونا وائرس سے متاثرہ پہلی مریض کی موت کی خبر شانگلہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی لیکن دوسری جانب مسائل اُس وقت پیدا ہوگئے جب میت کو غسل، جنازہ اور تدفین کیلئے کوئی نہیں مل رہے تھے اور ہر کوئی خوف کی وجہ سے ڈیڈ باڈی کے پاس نہیں جارہا تھا۔ ایسے میں ہسپتال کے ڈی ایم ایس اور کرونا کے فوکل پرسن ڈاکٹر حافظ ثناء اللہ نے وہ کرکے دکھایا جو آج تک کسی نے نہ کیا ہوگا۔ حافظ ثناء اللہ کو کوئیڈ 19کے متوفی کو بغیر غسل کے پلاسٹک میں بند کرنے کے احکامات تھے مگر موصوف نے فیصلہ کرلیا کہ وہ پرسنل پروٹیکٹیو ایکویپمنٹ پہن کر اسلامی اُصولوں کے مطابق متوفی کو غسل دیں اور انہوں نے ایسا ہے کیا متوفی کو خود غسل دینے کے بعد پلاسٹک میں بند کرکے تابوت میں بند کردی۔۔
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جب انہوں نے یہ سب کام کرکے ہسپتال کے عملے اور ٹی ایم اے کے اہلکاروں کو تابوت باہر کرنے کیلئے بلایا تو ہر کوئی خوف میں تھا اور نزدیک نہیں آرہا تھا تاہم انہیں سمجھانے کے بعد انہوں نے تابوت باہر کردی مگر پھر ذیادہ مشکل تب آئی جب جنازہ پڑھانے کیلئے علماء کرام کے ساتھ رابطہ کیا گیا کہ جنازہ پڑھائیں مگر جواب میں صرف انکار تھا۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب حافظ قرآن بھی ہے تو یہاں بھی وضوع بناکر آگے ہوئے اور نماز جنازہ پڑھایا جس میں موجود 10-12بندوں نے شرکت کی۔
ڈاکٹر ثناء اللہ کہتے ہے کہ جب میرہ آبائی گاؤں لنڈئی میں لاش پہنچادی گئی تو تدفین کرنے میں بھی مشکلات پیش آئیں اور یہاں بھی موصوف پیچھے نہ رہے ٹی ایم اے اہلکاروں کے ساتھ ملکر تدفین مکمل کرلی اور واپس ہسپتال آئے۔ڈاکٹر صاحب نے پوچھنے پر بتایا کہ خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے اموات کی شرح اس لیے ذیادہ ہے کہ اکثر ہسپتالوں میں سہولیات نہ ہونے کی برابر ہے مثال کے طور پر پورے ضلع شانگلہ میں پانچ وینٹی لیٹرز ہیں جو ذیادہ عمر کے افراد کیلئے بہت ضروری ہے مگر آفسوس کے اُ س کیلئے کوئی آپریٹر ہی موجود نہیں اسی طرح باقی مشینوں کیلئے ماہر لوگوں کی کمی ہے یہاں تک کے شروع میں پی پی ای کی شدید کمی تھی اور مشتبہ مریض کا سمپل لینے کیلئے بھی کچھ میسر نہیں تھا۔ اگر سہولیات دستیاب ہوتی اور آپریٹرز موجود ہوتے ان مشینوں کیلئے تو شاید کے پی میں شرح اموات ذیادہ نہ ہوتی۔
انہوں نے بتایا کہ بشام ہسپتال میں تمام تر انتظامات موجود ہیں مگر پھر بھی تشویشناک مریضوں کو یہاں نہیں رکھ سکتے کیونکہ وہ سہولیات یہاں دستیاب نہیں ہے۔

Load More Related Articles
Load More By Umar Bacha
Load More In خبرٰیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also

شانگلہ پورن میں پک اپ کھائی میں گرگئی، ایک ہی گھر کے دو خواتین جاں بحق چار افراد زخمی

شانگلہ کے علاقہ بر پورن میں پک اپ گاڑی کھائی میں گرگئی جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے دو…