اساتذہ کی پروموشن کا ناقص معیار

4 second read
0

نظام الدین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اپنے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کی کس کس کمزوری کی نشاندہی کریں۔ آج یہاں بات کرتے ہیں اساتذہ کرام کی پروموشن کے لیے موجود انتہائی غلط اور غیر معیاری طریقِ کار کی۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کے دورِ حکومت میں بنائی گئی پالیسی کے تحت سرکاری سکولز کے اساتذہ کو سینیارٹی کی بنیاد پر اگلے سکیلز میں ترقی ملتی ہے۔ اور یہ پالیسی بعد کی حکومتوں میں بھی قائم رہ کر آج تک جاری ہے۔ بے شک معاشرتی زندگی میں ہم عمر کے لحاظ سے بڑوں اور تجربہ رکھنے والوں کی قدر کرتے ہیں لیکن تعلیم کے میدان میں علمی معیار سے ہٹ کر صرف زیادہ سروس کی بنیاد پر کسی کو غیر متعلقہ ذمہ داری دینا بالکل درست عمل نہیں۔ مذکورہ پالیسی کے تحت پی ایس ٹی استاد کو سی ٹی اور ایس ایس ٹی میں پروموٹ کیا جاتاہے۔ عربی، ڈرائینگ، قرات اور اسلامیات کے استاد کو بھی گریڈ سولہ میں ایس ایس ٹی پوسٹ پر ترقی مل جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تمام اساتذہ ایس ایس ٹی پوسٹ سنبھالنے کے اہل ہوتے ہیں؟ یاد رہے میرا ذاتی تعلق بھی شعبہ تدریس سے ہے اور دل و جان سے “استاد” کی قدر کرتاہوں لیکن یہاں معاملہ صرف right person for the right job کا ہے۔ معمولی عقل والا اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتاہے کہ اے ٹی، ٹی ٹی اور قرات کی پوسٹ پر متعین اساتذہ کس طرح اردو، انگریزی اور مطالعہ پاکستان وغیرہ کے مضامین پڑھائیں گے۔ اسی طرح ساری زندگی پرائمری لیول کے اسباق کو بھی مشکل سے پڑھانے والے پی ایس ٹیز اوپر جاکر طلبہ کا سامنا کس طرح کریں گے۔ کچھ ایسے اساتذہ کو بھی ترقی ملتی ہے جو ایم اے پاس بھی نہیں ہوتے۔ میں تسلیم کرتاہوں کہ کچھ اساتذہ پی ایس ٹی، اے ٹی اور ٹی ٹی وغیرہ کی پوسٹوں پر ہوتے ہوئے بھی نہایت با صلاحیت اور لائق ہوتے ہیں جو ایس ایس ٹی لیول کے مضامین کو بھی بآسانی پڑھاسکتے ہیں لیکن مذکورہ پالیسی کے تحت اہل و نااہل کی تمیز کے بغیر پھر سب کو پروموشن مل جاتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کئی سکولز میں مدارس سے فارغ التحصیل اے ٹی اور ٹی ٹی اساتذہ گریڈ سولہ کی بنیاد پر ہیڈ ماسٹر یا انچارج ہیڈماسٹر بنے ہوئے ہیں لیکن ان کو دفتری امور اور افسران بالا سے خط و کتابت کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا، بالخصوص آج کے زمانے میں جہاں ہر طرف انگریزی کا راج ہے، ان اساتذہ کو سخت مشکل کا سامنا ہے۔ یہی حال پی ایس ٹی سے پروموٹ ہونے والے پرانے اساتذہ کا ہے۔ مجھے کسی کی ترقی اور سکیل پر کوئی اعتراض نہیں لیکن مدعا اتنی ہے کہ یہ پروموشن سینیارٹی کی بنیاد پر نہیں بلکہ علمی صلاحیت کے معیار پر ہونی چاہیئے۔ اگر کسی استاد کو پروموشن کا شوق ہو تو وہ ہر سال معمول کے مطابق ہونے والے ایس ایس ٹی اور سی ٹی کے این ٹی ایس ٹیسٹوں میں حصہ لے، اگر وہ کامیاب ہوا تو خود بخود مذکورہ پوسٹ کے لیے اہل قرار پائے گا، اگر ناکام ہوا تو پتہ چلے گا کہ وہ تاحال اپنی پرانی پوسٹ پر مناسب ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر حکومت کو بھی ان عمر رسیدہ اساتذہ کرام کی فکر ہے تو ان کو کسی سیکنڈری سکول میں ایس ایس بھرتی کرے یا کالج میں لیکچررشپ تک لیجائے لیکن اپنے متعلقہ مضمون میں۔ اسی طرح یہ بھی قبول کیا جاسکتاہے کہ ان کو اپنی اصل پوسٹ پر برقرار رکھ تنخواہیں بڑھائی جائیں لیکن قوم کے بچوں کا وقت ضائع نہ کیا جائے۔ کسی کا دل نہ دکھے مگر مشاہدہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ترقیاں مل گئی ہیں جو اپنے ذمہ لازم مضامین پڑھانے کی قطعا صلاحیت و اہلیت نہیں رکھتے۔ حکومت کو معیار کی فکر ہوتی نہیں اور معزز اساتذہ خود اتنی اخلاقی جرات کرتے نہیں کہ پروموشن نہ لیں۔ بس ہر کسی کو پیٹ، سکیل اور تنخواہ کا غم کھائے جارہاہے۔ نہ خوف خدا ہے اور نہ کوئی اخلاقی پشیمانی۔

Load More Related Articles
Load More By News desk
Load More In بلاگ/ کالم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also

وادی تانگیر کو قدرتی آفات کا سامنا ہے

حافظ تانگیری گلگت بلتستان کے حسین وادی تانگیر جو کہ ضلع دیامر میں واقع ہے تانگیر(80) اسی ہ…