(تحریر: نظام الدین)

اطلاعات ہیں کہ حکومت نے ایسے سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیاہے جن کی بیویاں بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام سے مستفید رہی ہیں، اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اس فیصلہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو نوکریوں سے برخواستگی اور شوکاز نوٹسزکے اجراء کا مرحلہ شروع ہوچکاہے۔ ہمیں بھی سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور لی جانی والی تنخواہوں پر بڑے اعتراضات رہے ہیں جن کا اظہار وقتاً فوقتاً کیابھی ہے لیکن حکومت کا موجودہ فیصلہ کسی بھی صورت دانشمندانہ اور انصاف پر مبنی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ آخر دس سال پہلے ہونے والے سروے کی بنیاد پر کسی عورت کو ملنے والی رقم کی پاداش میں آج اس کے شوہر کو نوکری سے کس طرح فارغ کیا جاسکتاہے۔ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام دراصل غریب اور مستحق عورتوں کے لیے تھا، جس کے لیے حکومت ہی کی طرف سے ہرعلاقے میں ایک ٹیم مقررتھی جو گھرگھر جاکرایک مخصوص فارم کی بنیاد پرسروے کرکے کوائف اکٹھا کرتی تھی، پھراس جمع شدہ ڈیٹاکی بنیاد پرہرعورت کا سکورنگ ٹیبل بنتاتھا اور پھر اسی سکور کے تحت حکومت ہی نے فیصلہ کیاتھا کہ یہ عورت مستحق ہے یا غیر مستحق۔ اس طریقہ کارمیں مستحق عورت یا خاندان کا کوئی عمل دخل نہ تھا، ملازمت سمیت تمام ضروری کوائف لکھنا، تحقیق کرنا اور خانوں کا بھرنا سروے اہلکاروں کی ذمہ داری تھی۔ تو جب سارا پراسس حکومت کی طرف سے مقررکردہ اہلکاروں کی سروے اور سرکاری دفاتر کی نگرانی میں بنائے گئے سکور کی روشنی میں مکمل ہواتھا تو اس میں سرکاری ملازمین کا کیا قصورہے؟ اگر واقعی جرم ہواہے تو اس کی جواب طلبی ان اہلکاروں سے کرنی چاہئے جو سروے اور سکور نکالنے پر مامور تھے۔ ہمارے علم میں ایسے سرکاری ملازمین بھی آئے ہیں جن کا کہناہے کہ بے نظیرانکم سپورٹ کے لیے دس سال پہلے ہونے والے سروے کے وقت بذات خود ہم گھرمیں موجود نہیں تھے، صرف ان پڑھ بیویاں تھیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں تھا کہ استحقاق کے لیے شرائط کیاہیں، نہ ہمیں یہ پتہ تھا کہ اگر عورت کا شوہر، بیٹا یا والد سرکاری ملازم ہو تو وہ مذکورہ رقم لینے کی مستحق نہیں ہوگی۔ اسی طرح ہمارے علم میں یہ بات بھی نہ آئی تھی کہ مذکورہ اہلیت فارم میں ملازمت کا بھی کوئی خانہ موجود ہے، مزید کہناتھا کہ ہم نے بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام سے رقم کی وصولی کے لیے نہ کوئی درخواست کی تھی اور نہ کسی اثرورسوخ اور سفارش کا سہارا لیاتھا، تو اگر سروے کرنے والوں نے کوئی غلطی کی ہے یا سرکاری دفترمیں سکور بناتے وقت ہماری بیویوں کے نام مستحقین میں شامل کیے گئے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصورہے۔۔۔۔ بہرحال اُس وقت کے محکمہ کی غفلت، عدم انتظام اور سروے اہلکاروں کی غلطیوں کی پاداش میں آج سرکاری ملازمین یا پولیس اہلکاروں کو نوکریوں سے فارغ کرنا قطعا درست فیصلہ نہیں۔ سرکاری ملازمین کی دیگر کوتاہیاں اپنی جگہ لیکن اس معاملہ میں نہ انہوں نے کوئی چوری کی ہے اور نہ یہ کوئی چھپی بدعنوانی ہے، زیادہ سے زیادہ اتنا کیاجائے کہ اگرسرکاری ملازمین کے اہل خانہ کے لیے مذکورہ رقم لینا درست نہیں تھا، جس کا انکشاف آج دس سال بعد ہورہاہے، تو ان تمام ملازمین سے وہ تمام رقم انسٹالمنٹ کی صورت میں واپس لی جائے جو ان کی بیویوں یا اہل خانہ نے اب تک وصول کی ہے لیکن ان کی نوکریاں تو ختم نہ کی جائیں۔ بے شک یہ رقم ایسی خواتین کو ملنی چاہئے جن کا کوئی سہارا یا مستقل آمدنی کا ذریعہ نہ ہو۔ جس عورت کا شوہریا بیٹا وغیرہ سرکاری ملازم ہے تو وہ کسی نہ کسی طورپھر بھی بہتر پوزیشن میں ہے۔ پھر عرض ہے کہ حکومت اپنے اس فیصلہ پر نظرثانی کرکے سرکاری ملازمین اور بالخصوص پولیس اہلکاروں کی پریشانی ختم کرے۔

Load More Related Articles
Load More By News desk
Load More In Blogs

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also

A personal reflection of facing challenges and finding peace

I was at the University of the Punjab, where I earned my bachelor’s in mass communic…